تحریر: اکرم عامر سرگودھا
پاکستانی سیاستدانوں کا محور آج کل لندن ہے اور وفاق میں حکمران جماعت کے سربراہ نواز شریف سمیت کئی شخصیات لندن میں رہ رہی ہیں اور پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت کے اثاثے اور سرمایہ بھی لندن، امریکہ سمیت دیگر ممالک میں ہیں، پی ٹی آئی کے کپتان اقتدار میں آنے سے پہلے دعوے کرتے رہے کہ وہ اقتدار میں آئیں گے تو بیرونی ممالک میں مقیم سیاستدانوں سے پاکستان کی لوٹی ہوئی رقوم برآمد کر کے وطن واپس لائیں گے، 2018 میں کپتان عمران خان اقتدار میں آئے، ساڑھے تین سال تک وہ دعوے ہی کرتے رہے لیکن پاکستانی سیاستدانوں کے لوٹ کر منتقل کیے گئے اربوں کھربوں ڈالر کسی بھی دوسرے ملک سے برآمد کر کے پاکستان نہ لائے جا سکے، حالانکہ اس مقصد کیلئے ملک میں نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن جیسے ادارے کام کر رہے ہیں۔
بات یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی وفاق میں حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے اور مسلم لیگ (ن) کو لندن سے بیٹھ کر میاں نواز شریف جو کہ سزا یافتہ ہیں ہدایات دے کر چلا رہے ہیں، یہاں ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور چند وزراءلندن پہنچ گئے ہیں، جہاں میاں نواز شریف سے آرمی چیف کی تقرری سمیت دیگر معاملات پر بات چیت کریں گے اور جو ہدایات انہیں میاں نواز شریف دیں گے، وطن واپس آ کر شہباز شریف اور ان کی کابینہ من و عن اس پر عملدرآمد کریں گے، جبکہ ظاہر یہ کیا گیا ہے کہ میاں شہباز شریف ملکہ برطانیہ کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے گئے ہیں، انہیں (شہباز شریف کو) ملکہ برطانیہ کی آخری رسومات میں جانا بھی چاہئے کیونکہ ملکہ برطانیہ کی آخری رسومات میں دنیا کے بہت سے ممالک کے سربراہان مملکت شرکت کرنے جا رہے ہیں، اس سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔
بات ہو رہی تھی پاکستانی سیاستدانوں کے برطانیہ میں اربوں، کھربوں روپے کے اثاثوں اور سرمایوں کی، وہ تو کپتان اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود واپس نہ لا سکے؟ اور کپتان عمران خان کو کرپٹ سیاستدانوں کیخلاف کارروائی میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہی نہیں بلکہ جنہیں عمران خان کرپٹ کہتے تھے انہوں نے مل کر عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کر کے اسے کرسی سے ہی اتار دیا کہ ”نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری“۔ نہ کپتان ہو گا نہ وہ اپنے مخالفین کیخلاف کرپشن کا شور شرابا کرے گا، لیکن توجہ طلب امر یہ ہے کہ ایک خبر کے مطابق لندن سے چند ماہ قبل ایک قیمتی کار چوری ہوئی، لندن سے چوری ہونے والی انتہائی مہنگی “بینٹلے ملسن” کار محکمہ کسٹم نے ڈی ایچ اے کراچی کے علاقے سے برآمد کرلی، برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کی دی گئی معلومات پر کراچی میں لندن سے چوری ہونے والی گاڑی کی برآمدگی کے اس بے مثال واقعے نے ملک کے مختلف اداروں کی کارکردگی پر سنگین نوعیت کے سوالات اٹھا دیئے ہیں کہ لندن سے چوری ہونے والی کار بالآخر پاکستان کیسے پہنچی؟
دستاویز کے مطابق برطانوی خفیہ ایجنسی نے CCE کراچی کو مصدقہ اطلاع بھیجی کہ لندن سے چوری ہونے والی ایک گرے رنگ کی بینٹلے ملسن وی 8 آٹو میٹک کار کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں موجود ہے، دستاویز کے مطابق گاڑی کا VIN نمبر SCBBA63Y7FC001375 ہے اور اسکا انجن نمبر CKB304693 ہے، جس کے جواب میں سی سی ای کی ٹیم نے معلومات کی تصدیق کے لیے مذکورہ مقام پر کڑی نگرانی کی اور تلاشی کے دوران محکمہ نے گاڑی برآمد کر لی، جو گھر کے کار پورچ کے اندر کھڑی تھی۔ گاڑی کو ہلکے سرمئی رنگ کے کپڑے سے کوور کرکے رکھا گیا تھا، کپڑا ہٹانے پر سرمئی رنگ کی بینٹلے ملسن کار برآمد ہوئی جس پر پاکستانی رجسٹریشن نمبر BRS-279(2020 Sindh) پایا گیا، جبکہ سامنے سے سفید رنگ کی ہاتھ سے بنی نمبر پلیٹ BRS-279 لگی پائی گئی، گاڑی کا چیسز نمبر لندن سے چوری ہونے والی گاڑی کی دی گئی تفصیلات کے مطابق تھا اور نتیجتاً محکمہ نے مذید تفتیش کیلئے مالک اور گاڑی کو تحویل میں لے لیا۔
ابتدائی تحقیقات کے دوران گاڑی کے مالک نے انکشاف کیا کہ گاڑی اسے کسی اور شخص نے فروخت کی تھی، جس نے متعلقہ حکام سے تمام مطلوبہ دستاویزات کلیئر کرنے کی تمام ذمہ داری بھی لی تھی، اس کی اطلاع پر محکمے نے مذکورہ شخص کو بھی گرفتار کر لیا ہے، جس نے اپنا تعارف بروکر کے طور پر کرایا اور مرکزی مجرم کا نام ظاہر کیا، جو اہم سیاسی شخصیت بتایا جاتا ہے اور تا حال پکڑا نہیں گیا۔ اس طرح دیار غیر سے چوری ہونے والی کار برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کی اطلاع پر کراچی سے برآمد کر لی گئی ہے، کار کی برآمدگی کوئی انہونی بات نہیں ہے لیکن اچنبے کی بات یہ ہے کہ کار برطانیہ سے چوری ہو کر پاکستان سے برآمد ہوئی، آخر یہ پاکستان تک کیسے پہنچی یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بہت بڑا سوال ہے؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ برطانیہ نے اپنی چوری ہونے والی کار کی پاکستان میں درست نشاندہی کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا چاند تک پہنچ چکی ہے اور پاکستان میں ابھی کرپشن کے کھیل سے سیاستدانوں کو فرصت نہیں؟
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی پاکستانی سیاستدانوں میاں برادران، آصف زرداری سمیت دیگر سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں اور بینک اکاﺅنٹس کی جو پاکستان سے لوٹ کر ان سیاستدانوں نے بیرون ممالک بنائے، پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے حتیٰ کہ کپتان عمران خان ساڑھے 3 سال تک لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کیلئے تگ و دو کرتے رہے، پاکستان کے کروڑوں ڈالر اس عمل پر خرچ ہوئے لیکن کسی بھی بیورو کریٹ، سیاستدان سے برطانیہ، امریکہ، سویٹزرلینڈ سمیت کسی ملک سے ایک پائی کی رقم بھی واپس نہ لائی جا سکی، بلکہ کرپشن کے مرتکب سیاستدانوں نے وہ حکومت ہی گرا دی جو پاکستان سے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کی گئی رقم واپس مانگ رہی تھی، اقتدار میں آ کر نیب قانون میں تبدیلی کر کے 150 اہم سیاسی شخصیات جن میں ملک کے وزیر اعظم شہباز شریف، ان کے بیٹے حمزہ شہباز، سابق وزیر اعظم پرویز اشرف، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، سردار مہتاب، سلیم مانڈی والا، اعجاز ہارون و دیگر شامل ہیں کیخلاف ریفرنس واپس لے لئے گئے ہیں، اس طرح پاکستان کی لوٹی ہوئی رقم بیرونی ممالک میں محفوظ رہے گی اور عین ممکن ہے کہ آئندہ اقتدار میں آ کر کوئی ان سیاستدانوں سے پاکستان کی لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی کا مطالبہ تک نہ کرے؟ کیونکہ کرپشن کی لوٹی ہوئی رقم واپس مانگنے پر عمران خان کا انجام سب دیکھ چکے ہیں۔
Notice: Undefined variable: aria_req in /home2/monthly1/public_html/wp-content/themes/avc/comments.php on line 73
Notice: Undefined variable: aria_req in /home2/monthly1/public_html/wp-content/themes/avc/comments.php on line 79