تحریر: ناظم زرؔسنّر
مجھے اپنے تمام دوستوں سے نفرت ہو گئی تھی، دل چاہتا تھا اُن سب سے کہیں دور چلا جاؤں۔ میرے دوست میرے اسکول کے ساتھی تھے جن میں سے اکثر بچپن سے میرے ساتھ پڑھ رہے تھے۔ وہ سب اپنی زندگی سے بہت خوش معلوم ہوتے تھے، میرے ساتھ کھیلتے تھے، گھومتے پھرتے تھے، مگر میں کچھ اور چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اُن کی دوستی صرف عیش و عشرت تک ہے۔ وہ میری مشکلات میں میرا ہاتھ تھامنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ جن دنوں میں میٹرک کا طالب علم تھا، مجھے بہت تیز بخار ہوگیا۔ میں دو ہفتوں تک اسکول سے غیر حاضر رہا۔ عبدالباسط کے علاوہ کسی نے گھر آ کر میری عیادت نہیں کی، اور وہ بھی کیوں آیا؟ اُس کے پاس حیاتیات کے نوٹس نہیں تھے جو وہ مجھ سے لینے آیا تھا اور اسی مجبوری سے میری عیادت بھی کر لی۔ اب میں ان میں سے کسی کے منھ نہیں لگنا چاہتا تھا۔ گرمی کی چھٹیاں ہوئیں تو میری خالہ زینت حبیب کوئٹہ سے ہمارے ہاں حیدر آباد آئیں۔ انھوں نے ہمیں دس دن کے لیے اپنے ہاں مدعو کیا۔ امی جان مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہتی تھیں، وہ میری چھوٹی بہن ثانیہ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھیں۔ میں اپنی ضد پر اڑ گیا۔ میں نے کہا اگر جائیں گے تو تینوں ساتھ جائیں گے ورنہ کوئی نہیں جائے گا۔ امی جان کو میری ضد نا گوار گزری جب کہ خالہ جان نے میری حمایت کی۔ آخر امی جان نے ناراض ہو کر جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ ان دنوں میں گھر کے گھٹے گھٹے ماحول سے تنگ آ چکا تھا۔ خالہ جان نے آخر کہا کہ “حامد بیٹے! تم مجھے کوئٹہ چھوڑ کر واپس آ جانا، آتے ہوئے بھی مجھے بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، تم ساتھ ہو گے تو میرا سفر آسانی سے کٹ جائے گا۔”
“ان کو بھی اپنا ہی مطلب ہے،” میں نے دل میں سوچا۔ مگر میں کسی بھی قیمت پر ایک بار گھر سے فرار ہونا چاہتا تھا۔ امی جان نے بہت ٹوکا مگر میں ایک ہفتہ وہاں قیام کرنے کا ارادہ کر کے جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ با دل نا خواستہ امی جان نے میرے کپڑے پیک کر دیے۔ ہمیں ریل کے ذریعے جانا تھا۔
خالہ جان، میری امی کی نسبت بہت زندہ دل خاتون ہیں، ہم ریل گاڑی میں اکٹھے بیٹھے تھے، میں نے غور کیا کہ وہ میری باتوں کو بہت اہمیت دیتی تھیں، انھوں نے میری کسی بات کا برا نہیں مانا، اگر میں دلیل پیش کرتا تو وہ کھل کر حمایت کرتیں اور مجھے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتیں۔ سفر کیسے گزر گیا، پتہ ہی نہیں چلا۔ ہم شام کے وقت گھر پہنچے تو دروازے پر ان کی اکلوتی بیٹی اقصیٰ کو منتظر پایا۔ وہ ہمارے آتے ہی اپنی ماں کے ساتھ لپٹ گئی۔ “جانے سب ماؤں کو اپنی بیٹیوں سے ہی اتنی محبت کیوں ہوتی ہے؟” میں نے دل میں سوچا۔
“اقصیٰ! اپنے بھائی کو تو بلاؤ۔” خالہ جان نے کہا۔
بہت شرمیلی قسم کی تھی، مجھ سے عمر میں صرف ایک سال چھوٹی۔ اپنے دوپٹے کو سر پر درست طرح سے لیتے ہوئے،
“حامد آپ کیسے ہیں؟” اس نے آہستگی سے نظریں اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
“تمھارے سامنے ہوں، زبردست۔ ماشاء اللّٰہﷻ کافی بڑی ہو گئی ہو!”
“ماشاء اللّٰہﷻ! آپ کی بھی مونچھیں نکل آئی ہیں۔”
“سو تو ہے،” میں زیرِ لب مسکرایا۔ پہلی بار کوئی لڑکی اتنی اپنائیت سے میرے ساتھ پیش آئی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ دس سال پہلے وہ بھی حیدر آباد میں ہمارے پڑوس میں رہا کرتے تھے، ان دنوں خالو حبیب ایک بک سٹور چلاتے تھے اور نوکری کی تلاش میں تھے۔ تب اقصیٰ پانچ سال کی تھی اور اس کا بڑا بھائی صادق آٹھ سال کا تھا۔ خالو کو محکمہ جنگلات میں نوکری مل گئی، دو سال بعد ان کا کوئٹہ تبادلہ ہو گیا اور وہ اپنے خاندان سمیت اس سرکاری مستقر میں قیام پذیر ہو گئے جو آج کل ان کا گھر ہے۔ قریبا تین سال پہلے صادق پتنگ بازی کرتا ہوا اپنے کمرے کی چھت سے نیچے گرنے سے شدید زخمی ہو گیا، ہفتہ بھر اسپتال میں داخل رہا، تب میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا، وہ اپنے زخموں سے جان بر نہیں ہو سکا۔ خالہ جان تب سے اندرونی طور پر بالکل ٹوٹ گئی ہیں، ان کا اکلوتا بیٹا بھی فوت ہو گیا۔ خالہ جان کی ہر دوسری بات میں صادق کا ذکر ہوتا، مثلا ایک دن بریانی پکائی تو خالہ جان بولیں، “صادق کو بریانی بہت پسند تھی”، شلجم پکائے تو “صادق تو شلجم کو منھ نہیں لگاتا تھا،” کپڑے خرید کر لائیں تو “صادق کو بلو کلر بہت پسند تھا”، و علی ہذا القیاس۔
ان کا گھر تین کمروں پر مشتمل تھا، ایک میں خالہ اور خالو سویا کرتے تھے، دوسرے میں صادق اور اقصیٰ اور تیسرا کمرہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ صادق فوت ہو چکا تھا، خیر خالہ جان کی جوانی بھی ڈھل چکی تھی، اور خالو بھی رات کی ڈیوٹی پر تھے، اس لیے ماں بیٹی ایک ہی کمرے میں سو جاتے تھے۔ میں اقصیٰ کے کمرے میں سویا۔ گھر شہر سے باہر تھا، ان کا کوئی پڑوسی نہیں تھا، مانو تو جنّت میں رہتے تھے۔
خالو جان صبح آٹھ بجے واپس آئے، تازہ دم ہوئے، مجھ سے بڑے تپاک سے ملے اور سو گئے، شام چار بجے تک وہ نہیں ہلے۔ خالہ جان کی طرح وہ بھی نہایت شفیق طبع تھے، مجھ سے اپنے سگے بیٹے کی طرح پیش آتے تھے۔ میں اور اقصیٰ گھر کے ارد گرد والے علاقے کی سیر کو نکلے۔ میں بہت خوش تھا کہ گھر کے ہوش ربا ہنگامے سے، جہاں میری کوئی قدر نہیں تھی، باہر نکلنے کا موقع ملا۔ یہ دونوں خاندان اپنے مزاج کے تضاد کے لحاظ سے قطبین کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ گھر میں کوئی منھ نہیں لگاتا تھا اور یہاں یہ میرے ہونٹوں کو دیکھتے تھے کہ میں کوئی بات کروں تو وہ میری ہاں میں ہاں ملائیں اور گفتگو کا کوئی موضوع ملے۔ میں اپنی طرف سے بہت لمبی لمبی چھوڑ رہا تھا مثلا میں نے پانچ منٹ میں پانچ کلومیٹر کی دوڑ لگا کر شرط جیت لی، یا کلاس میں سب مجھے استاد سا مقام دیتے ہیں، مگر وہ میری کسی بات کی نفی نہیں کر رہے تھے، الٹا میری تعریف کر کے مرعوب ہو رہے تھے۔ میں جانتا تھا کہ وہ بھی سچ جانتے ہیں، مگر جو وقت مسکراہٹوں میں گزر جائے، اس کا نعم البدل کچھ نہیں ہوتا۔ اقصیٰ اکیلی رہا کرتی تھی، یعنی اپنی والدہ کے ساتھ۔ ہم نے بہت سیر کی، خالہ جان کے ساتھ شاپنگ پر بھی گئے، انھوں نے مجھے ایک گھڑی اور گیند بلا خرید کر دیے، دس دن کیسے گزر گئے، پتہ ہی نہیں چلا۔
دس دن بعد گھر سے ابو جان کا فون آیا کہ بیٹا میں تمھارے بن اداس ہو گیا ہوں، گھر واپس آ جاؤ نا! سچ پوچھو تو اپنے گھر میں مجھے ابا جان سے عزیز کوئی نہیں، اور پوری دنیا میں ان سے زیادہ شفیق کوئی نہیں ہو گا۔ وہ ٹرک ڈرائیور ہیں، اکثر سفر پر رہتے ہیں، کراچی سے ملتان تک اناج کی رسد و ترسیل کا کام کرتے ہیں۔ دس پندرہ دن بعد ایک آدھ بار گھر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ مجھے کوئی بھی کہتا تو میں واپس نہیں جاتا مگر۔۔۔
میں نے حیدر آباد واپس جانے کی تیاری کر لی۔ جب میں دروازے سے باہر نکلا تو اقصیٰ میرے پیچھے تھی، جب میں کار میں بیٹھ گیا تو اس نے شیشے سے مجھے پوچھا۔۔۔
“اگلے سال بھی چھٹیاں گزارنے یہاں آؤ گے نا!؟”
اقصیٰ کا یہ جملہ ایک کیف پرور آواز کی طرح میری روح میں تحلیل ہو گیا۔ اس کا معصوم سا چہرہ آنکھوں میں ایک چھوٹا سا سوال لے کر میرے ہونٹوں سے “ہاں” سننے کا منتظر تھا۔ میں اس کے چہرے کی کیفیت میں اتنا محو ہو گیا تھا کہ اسے کوئی جواب نہ دے سکا اور خالو جان نے کار چلا لی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ الوداع کرنے کے لیے ہاتھ نہیں ہلا رہی تھی۔ میں کوئٹہ سے بہت قیمتی یادیں اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔
گھر واپس تو پہنچا مگر خود کو کوئٹہ میں چھوڑ آیا تھا۔ میں کسی سے کوئی بات نہیں کرتا تھا، حتی کہ ابا جان سے بھی دوسری بار پوچھنا پڑتا کہ انھوں نے ابھی ابھی کیا کہا ہے۔ مجھے گھر والوں، خصوصا اپنی والدہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ مجھ سے پیار نہیں کرتیں، ان کی ساری محبتیں میرے بڑے بھائی حماد اور میری چھوٹی بہن ثانیہ پر نثار ہوتی ہیں۔
گھر میں کچھ بھی پکایا جاتا، حماد بھائی سے اجازت لی جاتی، میں کچھ پکانے کی خواہش بھی کرتا تو مدّت تک پوری نہ کی جاتی۔ انھیں با کفایت پاکٹ منی ملتی اور میرے پاس ایک گیند خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ثانیہ کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمیشہ میری لڑائی ہوتی رہتی تھی، ہمیشہ میں صحیح نہیں ہوتا تھا مگر امی جان ہمیشہ ثانیہ کی حمایت کرتی تھیں، اس بات نے مجھے ضدی بنا دیا تھا۔
ایک بار میں نے اکیلے میں امی جان سے پوچھا کہ وہ ہمیشہ ثانیہ کی ہی حمایت کیوں کرتی ہیں تو انھوں نے جواب دیا، “بیٹا! وہ ہمارے گھر میں ایک مہمان کہ طرح ہے، کل کو اس کا بیاہ ہو گا تو اپنے گھر چلی جائے گی، اور مہمان کا دل نہیں دکھانا چاہیے۔” ان کے جواب سے میرے ذہن میں دو سوالات نے جنم لیا:
*مہمان کو تنگ نہیں کرنا چاہیے، مستقل رہنے والے کو جتنا چاہے ذلیل کرو؟
*امی جان کو اپنی گیارا سال کی بیٹی کی شادی کی اتنی جلدی کیا پڑی ہے؟
میں نے گھر والوں کے ساتھ بول چال بہت محدود کر لیا، تعلیمی اخراجات ابا جان پورے کر دیتے تھے۔ فارغ وقت میں میں خالہ جان سے ملنے والا گیند بلا لے کر محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے نکل جاتا اور رات گئے واپس آتا۔ مختصراً میں صرف سونے کے لیے گھر آتا تھا۔ مجھے کوئٹہ کی یادیں بہت ستاتی تھیں، خالہ جان کی شفقت، خالو جان کی خوش گپیاں، کوئٹہ کے دلکش مناظر اور ان سب سے بڑھ کر اقصیٰ۔۔۔
دنیا میں وہ واحد لڑکی جو اپنے آپ سے زیادہ مجھے اہمیت دیتی تھی۔ جو مجھ سے پوچھتی تھی آج گھر میں کیا پکانا ہے۔ ناشتہ کرنے کے بعد ہم دونوں گھر سے باہر نکل جاتے، میں سارا دن گپیں ہانکتا اور وہ دلچسپی سے سنتی۔ اپنی پسندیدہ چیزوں، اپنے سکول اور اپنے گھر کے بارے میں مجھے بتاتی۔ کیسے شام ہو جاتی تھی، مجھے پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ بستر پر لیٹنے کے بعد چار چار گھنٹوں تک نیند نہیں آتی تھی کیوں کہ میں اپنے ذہن میں ان یادوں کو دہرا رہا ہوتا کہ کوئٹہ میں قیام کے دوران ہر رات سوچتا تھا کہ آج کون کون سی باتیں ہوئی ہیں اور کل ہمیں کیا باتیں کرنی ہیں۔ شبانہ روز کے اسی سلسلے میں میں نے میٹرک مکمل کر لی۔ اس بار گرمیوں میں ہم (امی، ثانیہ اور میں) نے خالہ جان سے ملنے کوئٹہ جانے کا منصوبہ بنایا۔ میں تو پہلے ہی منتظر تھا، ذہن میں سوچ رہا تھا کہ اقصیٰ کتنی بدل گئی ہو گی، رخصت ہوتے وقت اس کا معصوم چہرہ مجھے بار بار یاد آ رہا تھا۔
جب ہم کوئٹہ پہنچے تو میں نے دیکھا وہ ذرا بھی نہیں بدلی تھی، بالکل ویسی ہی معصوم، بھولی بھالی سی۔ ہمیں، خاص طور پر مجھے، دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ ہم تین دن کے لیے آئے تھے۔ دوسرے دن خالو جان نے امی جان کے سامنے ایک تجویز پیش کی۔ وہ یہ کہ حامد (میں) اپنی اگلی تعلیم ان کے ہاں کوئٹہ رہ کر حاصل کرے گا۔ اس کی وجہ انھوں نے بتائی کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور گھر میں بیٹے نہ ہوں تو بنجر لگتا ہے۔ کیوں کہ حماد بھائی امی کے پاس ہیں، انھیں میری کمی اتنی محسوس نہیں ہو گی۔ مزید یہ کہ وہ مجھے مہمان کے طور پر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، میں جب چاہوں یا میرے والدین جب چاہیں، مجھے واپس لے جا سکتے ہیں۔ امی جان نے پہلے تو قطعاً انکار کردیا مگر ان کے اصرار کرنے پر کہا کہ وہ ابا جان سے بات کر کے بتائیں گی۔ میں نے اپنے دل میں کوئٹہ جانے کا تہیہ کر لیا، مگر امی جان کے پوچھنے پر حتمی فیصلہ ابا جان کے سپرد کر دیا۔ ابا جان نے تنہائی میں مجھ سے پوچھا تو میں نے دو سال کے لیے وہاں جانے کی خواہش ظاہر کی، کہ انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد گھر واپس آ جاؤں گا۔ ابا جان بھی راضی ہو گئے اور میں گھر کے قید خانے سے لمبی رخصت لے کر کوئٹہ پہنچ گیا۔
اقصیٰ اپنی عمر کی طرح پڑھائی میں بھی مجھ سے ایک سال پیچھے تھی۔ خالہ جان اور خالو جان سے زیادہ وہ میرا خیال رکھتی تھی۔ مجھ سے بار ہا پوچھتی کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ خالہ جان اُس سے جب بھی میرا ذکر کرتیں تو کہتیں، “اقصیٰ، بھائی کو کھانا دو،” ، “بھائی کا بستر لگا دو،” ، “بھائی کے کپڑے استری کر دو،” اور وہ چپ چاپ یہ سب کام بہت اچھے طریقے سے سر انجام دیتی۔ بہم بے تکلف ہوتے ہوتے ہمیں دو تین مہینے لگ گئے۔ میرا سارا فارغ وقت اسی سے باتیں کرتے ہوئے گزرتا تھا، بلکہ وہ اس بات کی منتظر رہتی کہ میں کب فارغ ہوتا ہوں۔ میں کہیں بیٹھا ہوتا تو میرے پاس آ کر خاموشی سے بیٹھ جاتی اور میں کسی بھی طرح اُس سے بات کیے بغیر نہیں رہ پاتا تھا۔ اس کا یہ معصومانہ انداز مجھے بہت پسند تھا۔ میں خود منتظر رہتا تھا کہ وہ کب مجھ سے بات کرے۔ پڑھائی میں میری طرح وہ بھی کچھ کمزور ہی تھی۔ مگر ہم اوسط درجے میں پاس ہو جاتے تھے، یہی کافی تھا۔
ایک دن ہم جوس بنانے کے لیے انار چھیل رہے تھے، اقصیٰ نے مجھ سے پوچھا:
“تمھیں پتہ ہے ابا جان نے تمھیں یہاں کیوں بلایا ہے؟”
“نہیں مجھے نہیں پتہ، کیوں؟”
“کیوں کہ انھیں میں نے کہا تھا۔”
“تم نے! سچی؟”
“ہاں!!!”
“مگر وہ کیوں؟”
“کیوں کہ مجھ اکیلی کا دل نہیں لگتا۔ کاش! میرا بھی کوئی بھائی یا بہن ہوتی، تو میں اکیلی نہ ہوتی۔”
“تم بھائی بہن نہ ہونے کی وجہ سے اکیلی ہو، اور میں ان کے ہونے کے باوجود بھی اکیلا ہوں۔”
“میں تو اللّٰہﷻ تعالی سے شکوہ کرتی ہوں کہ میرا بھائی واپس لے لیا، اور تم ان کے ہونے کے باوجود بھی اکیلے ہو۔ وہ کیوں؟”
“کیوں کہ وہ مجھے بھائی ہونے کا حق نہیں دیتے۔ ہمیشہ اپنی من مانی کرتے ہیں۔”
“اف اللّٰہﷻ! ایسا تو نہیں کرنا چاہیے انھیں۔”
“مگر وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔”
“میں تم سے کبھی ایسا نہیں کروں گی، وعدہ!”
“مگر، تم نے مجھے ہی کیوں چنا؟ ثانیہ کو بلا لیتیں۔”
“اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو خالہ جان بیمار رہتی ہیں، انھیں گھر کا کام کون کر کے دیتا، اور دوسری، ہم لڑکیاں ہیں نا، آپس میں بہت جلتی ہیں، ہمیشہ لڑتی رہتیں، جبکہ ہم دونوں کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں۔”
“اقصیٰ! اک بات پوچھوں؟”
“دو پوچھو۔”
“کیا تم مجھے واقعی اپنا بھائی سمجھتی ہو؟”
“یہ فیصلہ تم پر ہے۔ میں تمھیں صرف اپنا ساتھی سمجھتی ہوں، اگر تم بھائی بننا چاہو، تو بہن صدقے، اگر نہیں، تو دوستی سے بڑا کوئی رشتہ نہیں۔”
ہمارے ملنے پر خالہ جان نے کبھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ میں اپنی والدہ سے بھی زیادہ ان کی عزت کرتا تھا اور کبھی بھی ان کے بھروسے کو توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ ایک بار انھوں نے اکیلے میں مجھے کہا:
“بیٹا! تم مجھے اتنے پیارے ہو کہ اگر آدھی زبان سے بھی کہہ دو گے، تو میں اقصیٰ کو تمھارے حوالے کر دوں گی، مگر مجھے یقین ہے کہ تم کسی کے سامنے ہمارا سر نیچا نہیں ہونے دو گے۔”
اور خدا گواہ ہے، کہ میں نے کبھی بھی ان کے بھروسے کو نہیں توڑا۔
گرچہ میں جانتا ہوں، میرے دل میں اقصیٰ کے لیے کوئی غلط سوچ نہیں تھی، مگر میں نے بھی اسے نہ کبھی بہن کہا تھا، نہ سمجھا تھا۔ میں پڑھائی میں اُس کی مدد کرتا تھا۔ میری ہر ضرورت کا خیال وہ خود رکھتی تھی۔ اُس نے کبھی خالہ جان کو میری چیزوں کو ہاتھ تک نہیں لگانے دیا تھا۔ آہستہ آہستہ ہم ایک دوسرے کے عادی ہو گئے، ہم کھیلتے بھی تھے، لڑتے بھی تھے اور پھر مان بھی جاتے تھے۔ ایک سال کیسے گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ فرسٹ ائیر کے بعد میں ایک مہینے کے لیے اپنے گھر واپس آیا۔ اب سب گھر والے میرے سامنے بچھے جاتے تھے، ثانیہ بھی بہت بدل گئی تھی، مجھ سے کوئٹہ کے بارے میں پوچھتی۔ میری مرضی کا کھانا پکاتی، مجھ سے کھیلتی، مگر میں اپنے آپ کو کوئٹہ کے حوالے کر چکا تھا۔ اقصیٰ کے بغیر حیدر آباد میں میرا دم گھٹ رہا تھا اس لیے میں دس دن بعد ہی واپس لوٹ گیا۔ مگر چند روز کے لیے ثانیہ کو بھی اپنے ساتھ لے گیا کیوں کہ وہ جیسی بھی تھی، اقصیٰ کے رویے نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ ایک بہن اپنے بھائیوں سے کیا چاہتی ہے اور میں نے اس سے پہلے اس سے کبھی اتنی شفقت سے بات نہیں کی تھی۔ میں اُس سے گھر کے بارے میں پوچھتا، اس کے ساتھ کھیلتا، ہر روز اسے کچھ نہ کچھ لا کے دیتا۔ اس مہینے میری توجہ اقصیٰ سے زیادہ ثانیہ کی طرف رہی۔ جب میں اُسے گھر واپس چھوڑنے آیا تو تین دن تک بہت افسردہ افسردہ سا رہا۔
فرسٹ ائیر کے دوران میں نے کرکٹ سے کچھ خاص تعلق نہیں رکھا تھا، مگر سیکنڈ ایئر میں ہوتے ہی، دوبارہ کھیلنا شروع کر دیا۔ ہفتہ بھر پڑھائی کرتا، اتوار کو شہر کے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا۔ میں میڈل جیت کر لاتا تو اقصیٰ بہت خوش ہوتی۔ انھیں ایک علیحدہ الماری میں سجا کر رکھتی۔ میں پہلے آل راؤنڈر تھا مگر جیسے جیسے بڑی ٹیموں سے مقابلے ہونے لگے، میں بلے باز بنتا گیا اور باؤلنگ کو بالکل ترک کر دیا۔ میں اوسط درجے کا بہت اچھا بلے باز تھا، یعنی اگر میں کریز پر کھڑا ہوں، تو بہت مشکل تھا کہ مخالف ٹیم میچ جیت جائے۔ جیسے جیسے میں مشہور ہوتا گیا، میرا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرنے لگا۔ میں اکثر رات کو کچھ دیر سے گھر واپس آتا، خالہ جان سو رہی ہوتیں مگر اقصیٰ شال اوڑھے میرا انتظار کر رہی ہوتی، اور آتے ہی کہتی:
“آج بہت دیر ہو گئی آپ کو۔ تھکے ہوئے ہوں گے۔ منھ ہاتھ دھو لیجیے، میں کھانا گرم کرتی ہوں۔”
اُس کا یہ پیار دیکھ کر میری جان نکل جاتی۔ میں دوستوں کے ساتھ کئی بار باہر ہی سے کھانا کھا کر آتا تھا، مگر اُس کا دل رکھنے کے لیے تھوڑا بہت چکھ لیتا تھا کیوں کہ وہ میرے بغیر نہیں کھاتی تھی۔ مجھ سے کچھ نہ پوچھتی کیوں کہ میں تھکا ہوا ہوتا تھا۔ میں نے بار ہا دیکھا کہ وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہو جاتی تھی کیوں کہ وہ مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں اُسے بار بار پوچھتا کہ کیا بات ہے مگر وہ تکلف بھری دو چار باتیں کرتی، مجھے کمبل اوڑھا کر، شب بخیر کہتی اور اپنی والدہ کے کمرے میں جا کر سو جاتی۔
میں نے پہلے پہل جلدی آنے کی کوشش کی، کئی بار میچز بھی چھوڑ دیے، مگر میں پہلے جس طرح اسے وقت دیتا تھا، اب وہ بات نہیں رہی تھی۔ میں کسی دور میں اُس کے اتنا زیادہ بولنے سے اکتا گیا تھا، مگر اب میں ترستا تھا کہ “اے کاش! وہ دن پھر سے لوٹ آئیں جب ہم آپس میں دل کھول کر باتیں کرتے تھے۔” اندرونی بلوچستان سے آئی ہوئی ٹیمیں واپس گئیں تو مجھے خوشی ہوئی کہ اب گھر رہ پاؤں گا۔ ایک بار اتوار کو میں اور اقصیٰ صبح صبح باہر ٹہلنے نکلے۔ میں نے اسے ان تمام میچز کے احوال بتائے جو میں نے کھیلے تھے، اس نے بھی مجھے بہت کچھ بتایا، مگر میرا دل جانتا ہے کہ مجھے اس سے باتیں کر کے کوئی خوشی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ شاید میں اُس سے اکتا گیا تھا یا وہ میرے دل میں اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ مجھے نہیں پتہ۔۔۔
سیکنڈ ایئر بھی مکمل ہوا اور وہ مدّت بھی جس کے لیے خالو جان نے مجھے کوئٹہ مدعو کیا تھا۔ ابا جان مجھے خود کوئٹہ سے لینے آئے۔ اب میں اقصیٰ کو نہیں، اپنی بہن ثانیہ کو یاد کر رہا تھا۔ خالہ جان کی شفقتیں اپنی جگہ، مگر مجھے اپنی والدہ یاد آ رہی تھیں۔ میں حیدر آباد واپس جانے کے لیے اتنا خوش تھا، کہ واپسی کے لیے ریل کی ٹکٹیں بھی خود خریدیں۔ میں جانتا تھا کہ اقصیٰ کی خاموش نگاہیں میری طرف تھیں، ان میں آنسو نہیں تھے، وہ مجھ سے بہت سے شکوے کرنا چاہتی تھیں، مجھے بے وفا کہنا چاہتی تھیں، اپنی بد قسمتی پر میرے سینے سے لگ کر رونا چاہتی تھی۔۔۔
وہ ضبط کر گئی، مگر ان باتوں کی تب میرے لیے کوئی اہمیت نہیں تھی، میرے ذہن میں صرف حیدر آباد گھوم رہا تھا۔ میں رخصت ہوتے ہوئے بہت خوش تھا، اِس بار اقصیٰ مجھے آخری بار دیکھنے کے لیے اپنے کمرے سے باہر تک نہیں نکلی۔ میں نے اسے “خدا حافظ!” تک نہیں کہا اور واپس حیدر آباد آ گیا۔ میری خوشی صرف تب تک تھی، جب تک کہ میں حیدر آباد واپس نہیں آیا تھا۔ ایک دن — صرف ایک دن میں ہی میری ساری خوشیاں پھیکی پڑ گئیں۔ تمام گھر والے میرے سامنے بچھے جاتے تھے مگر مجھے ان کے رویوں میں واضح بناوٹ اور تکلف نظر آ رہا تھا۔ اگرچہ میں نے اقصیٰ سے کچھ نہیں کہا تھا، مگر میرا ضمیر مجھے کوس رہا تھا، مجھے اِس بات کا شدید احساس ہونے لگا کہ میں نے اقصیٰ کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے، اور مجھے اُس سے معافی مانگنی چاہیے مگر میں اپنے آپ سے اتنا شرمندہ تھا کہ اُسے فون تک نہیں کر پایا۔ ایک ہفتہ یوں ہی گزر گیا۔ ایک دن خالہ جان نے مجھے فون کر کے کہا کہ “بیٹا! جس دن سے تم گئے ہو، اقصیٰ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ مجھے نہیں پتہ میں تمھیں یہ کیوں بتا رہی ہوں مگر مجھے پتہ ہے، تم اقصیٰ کو مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ اس کے امتحانات بھی ہونے والے ہیں۔ اگر تم یہاں آ جاؤ گے تو یہ ٹھیک ہو جائے گی اور امتحانات کی تیاری بھی ٹھیک طرح سے کر پائے گی۔”
اب میں گھر والوں کو کیا بتاتا؟ یہ کہ اقصیٰ میری جدائی کو سہہ نہیں سکی، بیمار ہو گئی اور اب اُس کے لیے مجھے کوئٹہ جانا ہے۔ وہ کیا سوچیں گے کہ میں وہاں کیا کرتا رہا ہوں اور اقصیٰ کے ساتھ میرا کیا چکر ہے؟
میں نے بات کچھ بدل کر کی، امی جان سے کہا کہ خالہ جان کہہ رہی تھیں “اقصیٰ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ آ کر اُس کی عیادت کر جائیں۔”
سوچ یہ تھی کہ امی جان مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گی مگر کوئٹہ جانے کے لیے تیار ہو گئے حماد بھائی۔ میں انکار بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ پچھلے سات سال سے کوئٹہ نہیں گئے تھے۔ میں نے بات بدلنے کی اپنی کی سی کوشش کی مگر اِس لیے کہ ان کو مجھ پر شک نہ ہو خاموش ہو گیا۔ ہاں، اتنا میں نے ضرور کہا کہ میں ساحلِ سمندر کی سیر کا ارادہ رکھتا ہوں، وہ ثانیہ باجی کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں، وہ اکیلی گھر میں رہ کر کیا کریں گی۔ وہ رضا مند ہو گئے۔ میں نے خالہ جان کو فون کر کے بتا دیا کہ امی جان عیادت کے لیے ان کے ہاں آ رہی ہیں۔ جب وہ واپس آئیں گی، میں تب آ سکوں گا۔ خالہ جان میری بات سمجھ گئیں۔ میں کراچی چلا گیا۔
خالہ جان نے میری والدہ سے کہا “اگر ممکن ہو تو کچھ دنوں کے لیے حامد کو ہمارے ہاں بھیج دیجیے گا۔ وہ اِس علاقے سے ماشاء اللّٰہﷻ اچھی طرح واقف ہو گیا ہے۔ اُس کے یہاں ہونے سے ہمیں بہت سہولت رہتی ہے۔” امی جان نے ہامی بھر لی۔ واپس آتے ہی امی جان نے مجھے فون کر کے کہا کہ “بیٹا! کچھ دنوں کے لیے اپنی خالہ کے ہاں چلے جاؤ، اقصیٰ کو اسپتال لے جانے میں بہت دقت ہوتی ہے۔ وہ تندرست ہو جائے تو واپس آ جانا۔” خیر یہ ترکیب تو کام کر گئی۔ میں اتنا خوش ہوا کہ حیدر آباد واپس جانا بھی گوارا نہ کیا۔ کراچی سے لسبیلہ پہنچا اور وہاں سے مکران کے راستے سیدھا کوئٹہ روانہ ہو گیا۔ کوئٹہ میں ابھی تک میری ضرورت کا سارا سامان موجود تھا کیوں کہ میرا خیال رکھنے والی اقصیٰ تھی۔
کیوں کہ اُسے پتہ تھا کہ میں آ رہا ہوں، اقصیٰ پہلے ہی کھڑکی سے میری راہ دیکھ رہی تھی۔ میرے دروازے پر آتے ہی وہ جھٹ سے نیچے کی طرف دوڑی اور گھر کے آنگن میں اِس طرح میرے سینے سے لگ گئی جیسے کسی کو دنیا جہاں بھر کی کھوئی ہوئی دولت واپس مل گئی ہو۔ خالہ جان اور خالو جان اُس کے بعد آئے مگر انھوں نے اقصیٰ کو پیچھے ہٹنے کے لیے نہیں کہا۔ قریبا سات منٹ تک وہ مجھے سینے سے لگا کر بے حس و حرکت کھڑی رہی۔ اِس کے بعد اُس نے میرے چہرے کی طرف دیکھا۔ تھکا ماندہ، اوسان مضمحل، بولی “جلدی سے نہا دھو لو، میں کھانا پکاتی ہوں۔ کیا کھاؤ گے؟ بریانی بناتی ہوں۔ ٹھیک ہے؟ زیادہ بھوک تو نہیں لگی؟ جلدی سے تازہ دم ہو جاؤ۔” اور بھاگ کر اندر چلی گئی۔ خالہ اور خالو نے ذرا بھی برا نہیں منایا۔ میں اندر پہنچا تو اقصیٰ میرے لیے کپڑے اور تولیہ لیے کھڑی تھی، میں نے خاموشی سے تھامے اور نہانے کے لیے چلا گیا۔
میں بھوکا نہیں تھا، کیوں کہ میں نے زیارت سے سیب خریدے تھے جو میں کوئٹہ تک کھاتا آیا تھا۔ میں خوب مل مل کر نہایا، بہت وقت لگا کر باہر نکلا کہ بریانی بنانے میں بہت وقت لگتا ہے، اور اگر میں جلدی سے باہر نکلا تو اقصیٰ بہت پریشان ہو گی کہ ابھی بریانی نہیں بنی۔
میں جا کر خالہ اور خالو کے ساتھ بیٹھ گیا۔ خالو جان نے مجھ سے کہا:
“بیٹا! تم سمجھ دار اور با شعور ہو۔ میری ریٹائرمنٹ کا سال قریب آ رہا ہے۔ اگر تم نباتیات کا مطالعہ کرو، جنگلات کے بارے میں تعلیم حاصل کرو تو میں اپنی خالی ہونے والی سیٹ تمھیں دلا دوں گا۔”
اقصیٰ مطبخ سے اچانک باہر نکلی: “آپ نے نہا لیا، بریانی بھی بس تیار ہو گئی ہے۔ ابھی لاتی ہوں۔”
میں جانتا تھا کہ اب حیدر آباد میرے لیے پرایا شہر ہو چکا تھا، میرے سارے دوست کراچی یا دوسرے شہروں کی طرف چلے گئے تھے۔ گھر میں میرا دل نہیں لگتا تھا، میری قسمت کوئٹہ کے ساتھ منسلک ہو چکی تھی۔ مگر پھر بھی میں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور ان سے کہا کہ “میں ابا جان سے مشورہ کر کے بتاؤں گا۔ اگر وہ مان گئے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”
اتنے میں اقصیٰ بریانی لے آئی۔ مگر یہ کیا؟ آدھے چاول جل کر کالے ہو گئے تھے۔ آدھے چاول کچے تھے۔ اور گوشت کی بوٹیاں پانی میں یوں تیر رہی تھیں جیسے مرغ دوبارہ زندہ ہو کر بانگ دینے کا ارادہ رکھتا ہو۔
سر جھکا کر آہستگی سے بولی “معاف کرنا، تم سے اتنا انتظار کروایا،” اور اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
مجھے اس پر بہت پیار آیا، دل چاہتا تھا کہ اُس کی پیشانی چوموں اور اپنے ہاتھوں سے اس کے چہرے کو تھام کر اپنے انگوٹھوں سے اس کے آنسو صاف کروں، مگر میں نے ضبط کا مظاہرہ کیا اور اسے رومال تھمانے پر اکتفا کیا۔ خالو جان نے ہم دونوں سے کہا کہ “میری کار لے جا کر کسی ہوٹل سے کھا آؤ۔”
محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ پچھلے دنوں بیمار بھی رہی ہو گی۔ آج وہ بہت خوش تھی، ہم ہوٹل کی بجائے سیر کو نکل گئے۔ ایک جگہ چھوٹی سی جھیل تھی۔ سڑک کے کنارے پر کار روکی اور نیچے اترے۔ ہم دونوں جھیل کے کنارے پر کھڑے تھے۔ میری نظر بادلوں اور جھیل کی طرف تھی، جبکہ وہ صرف میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے اُس کا دھیان ہٹانے کی کوشش بھی کی مگر بے سود۔ اُس کی مسکراہٹیں ہوا میں بکھر گئیں، چہرہ سنجیدہ ہو گیا اور آنکھوں کی چمک آنسوؤں میں تبدیل ہو گئی۔ میں نے نرمی سے پوچھا:
“اقصیٰ! کیا ہوا؟”
وہ جھٹ سے میرے سینے سے آ لگی اور بلک بلک کر رونے لگی۔ میں اسے چپ کرانے کے لیے اُس کے سر پہ ہاتھ پھیرتا تو اس کے بال میری انگلیوں سے الجھ جاتے۔ اُس کی بھرائی ہوئی آواز صرف یہ کہہ رہی تھی:
“میں تمھیں اپنا سمجھتی ہوں، صرف تمھیں۔ مجھ سے وعدہ کرو کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گے۔”
میں حقیقت میں اِسے اُس کا بچگانہ پن سمجھ رہا تھا، اُس کی دیوانگی، اُس کی تنہائیوں کا ردعمل۔ میں نے کہا
“نہیں چھوڑ کر جاؤں گا۔ تم فکر نہ کرو۔”
وہ کافی دیر تک یوں ہی بلک بلک کر روتی رہی اور میں اسے یقین دلاتا رہا، میرا دل ایک معصوم لڑکی سے جھوٹ بولنے کی وجہ سے مجھے مسلسل ملامت کر رہا تھا۔ بالآخر، وہ خاموش ہو گئی۔ اُس کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو گئی تھیں۔ شام ہونے والی تھی، اس لیے خالو اپنی ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔ انھوں نے ہمیں دیکھا تو جلدی گھر جانے کا کہا کیوں کہ آج تیز طوفان اور بارش آنے والی تھی۔ ہم دونوں کار میں بیٹھ گئے۔ واپسی پر دونوں نے ایک بھی لفظ اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔
ساری رات میں دوسری منزل کی کھڑکی کھول کر، ایک کرسی پر بیٹھا باہر ہوتی ہوئی تیز بارش اور چمکتی ہوئی بجلی کو دیکھتا ہوا یہ سوچتا رہا کہ اقصیٰ کے معاملے میں مجھے آگے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے رات بھر سوچ کر پچاس سے زیادہ حل تلاش کیے مگر ان میں سے کسی کا بھی اطلاق ہمیں جدا کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ میں نے شادی کے بارے میں بھی سوچا، مگر یہ کوئی حل نہیں تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ میں ہمیشہ اُس کے ساتھ رہوں، لیکن مرد ہونے کے ناطے مجھے بہت سارے کام کرنا ہیں۔ میں پڑھ رہا ہوں، مجھے جاب کرنی ہے، کمانے کے لیے گھر سے باہر جانا ہے، میں کیسے ایک لڑکی کے سینے سے لگ کر بت کی طرح بے حس و حرکت کھڑا رہوں؟
یہ نا ممکن ہے۔ ابھی کے لیے سوچا کہ امتحانات کی تیاری کروانے کے بہانے چند دن اس کے ساتھ رہوں گا، خدا خیر کرے گا۔ ان دنوں میں اُس کا رویہ بہت اچھا تھا۔ اس نے اچھی تیاری کی اور فرسٹ ائیر میں اعلی کامیابی حاصل کی۔ امتحانات کے بعد میں حیدر آباد واپس گیا، والد صاحب سے کوئٹہ یونیورسٹی میں نباتیات کے مطالعہ کی اجازت لینے کے لیے، وہ نہیں مان رہے تھے۔ بمشکل میں نے انھیں منایا۔ بالآخر کہنے لگے، “بیٹا، مجھ ان پڑھ گنوار کو کیا پتہ۔ تمھیں جیسا اچّھا لگے، ویسا کرو۔”
“ایسا رویہ اختیار کروں گا،” میں نے سوچا، “کہ وہ سمجھے گی میں اس کے ساتھ ہوں، مگر ہوں گا نہیں۔” اس کے لیے بہترین ترکیب یہ تھی کہ میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہوں، اور اقصیٰ کو دن میں ایک بار اپنا رخ دکھا آؤں۔ یہاں پر مجھے میرے پرانے کرکٹر دوست دوبارہ مل گئے۔ اور ہم نے پھر سے کھیلنا شروع کر دیا۔ شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ میں دوپہر کے وقت اقصیٰ کو گھر چھوڑنے جاتا کیوں کہ اُس کا سکول یونیورسٹی کے پاس ہی تھا، اور وہ مجھے ہر روز ان کے گھر آ کر رہنے کا کہتی، اور میں ہر روز اس سے وعدہ کرتا کہ ہمارا ٹورنامنٹ ہونے والا ہے، اس کی تیاری کر رہے ہیں، ختم ہوتے ہی میں گھر آ کر رہنے لگوں گا۔ وہ ہر روز خوش ہو جاتی اور مجھ سے صرف ایک ہی سوال پوچھتی:
“ٹورنامنٹ کا آخری میچ کس دن ہے؟”
“ابھی طے نہیں ہوا۔” میں جواب دیتا۔ ایک دن اتوار کو میں بالکل فارغ تھا۔ سوچا آج کا دن اقصیٰ کے نام کر دیتا ہوں۔ جب میں ان کے گھر گیا، اقصیٰ اپنی والدہ کو اپنے نئے کپڑے دکھا رہی تھی۔ اسے میرے گھر میں داخل ہونے کا بالکل پتہ نہیں تھا۔ اُس کی آواز سن کر میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ کہہ رہی تھی:
“امی، تمھیں پتہ ہے، نیلی فراکیں حامد کو بہت اچھی لگتی ہیں، چست سفید پاجامے کے ساتھ۔ اُس نے مجھے بتایا تھا کہ اُسے زرد اور فروزی کڑھائی والے لڑکیوں کے کپڑے بہت اچھے لگتے ہیں۔ دو ماہ بعد عید آنے والی ہے، میں بدل بدل کر وہ سارے کپڑے پہنوں گی جو اُسے پسند ہیں۔۔۔”
اور اُس کی والدہ خاموشی سے اُس کے مستقبل کے حسین سپنوں کی سوچ سے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ میں اپنی جگہ پر بیٹھ گیا، مجھ میں اٹھنے کی سکت نہیں رہی تھی۔ وہ نہ جانے کب تک اپنی والدہ کو کپڑے دکھاتی رہی۔ اُس کے بعد وہیں ماں کی گود میں سر رکھ کر سو گئی۔ میں تب اندر گیا، انھیں خاموش سلام کہا، سلامتی دریافت کی اور واپس چلا آیا۔ وہ ایک بے وفا کے عشق میں فنا ہو چکی تھی، میرا مقصد اُسے دھوکہ دینا بالکل نہیں تھا۔ میں نے سوچ لیا، کہ ٹورنامنٹ کے بعد ایک سال کے لیے یونیورسٹی چھوڑ دوں گا۔ اگلے سال، اقصیٰ کے ساتھ داخلہ لوں گا، اور ہمیشہ اُس کے ساتھ رہوں گا۔ خالو جان نے مجھے ایسا کرنے سے صاف منع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں بہت کچھ بدل جاتا ہے، تم اپنی پڑھائی جاری رکھو، میں کسی سائیکالوجسٹ سے اقصیٰ کی ذہنی کیفیت کا علاج کرواتا ہوں۔ مجھے ان کی بات سے یک گونہ اطمینان حاصل ہوا۔ ہمارا ٹورنامنٹ ڈیڑھ ماہ کے عرصے پر محیط تھا۔ بلوچستان کے تمام اضلاع اس میں شامل تھے، میں کوئٹہ سٹرائیکرز کا تیسرا بلے باز تھا۔ قریبا چار سائیکالوجسٹ اقصیٰ کے چیک اپ کے لیے آئے، مگر سب اسے نارمل قرار دے کر چلے گئے۔ اور چاروں نے ایک ہی بات کہی: ان دونوں کی شادی کر دو، لڑکی ٹھیک ہو جائے گی۔
ٹورنامنٹ میں کل پندرہ میچ کھیلے گئے، ہم نے چھ میچ کھیلے۔ مسلسل پانچ میچز میں فتح حاصل کی۔ ان تمام میچز میں میں نے کم از کم پچاس رنز فی میچ اسکور کیے تھے۔ وہ ٹیلیویژن پر میچ دیکھتی تھی۔ جب میں واپس آتا تو وہ بہت خوش ہوتی، مجھے میری غلطیاں بتاتی اور میری سٹرائیکس پر میری تعریف کرتی۔ فائنل میچ میں میں تئیس رنز پر چھکا مارنے کے چکر میں کیچ دے بیٹھا، یہ میچ ہم مکران ہنٹرز کے ہاتھوں ہار گئے۔ اس نے اس دن مجھ سے میچ کا ذکر ہی نہیں کیا، بلکہ اپنی ڈرائنگز دکھانے لگ گئی۔
ان دنوں مجھے ایک عجیب خیال آیا۔ وہ یہ کہ میں کچھ ایسا کروں جس سے اقصیٰ مجھ سے نفرت کرنے لگے۔ میں نے اس کے لیے کچھ اقدامات کیے۔ اس سلسلے میں میں نے خالو جان کو پہلے اعتماد میں لے لیا۔ پہلے میں نے شراب پینے کا ڈھونگ رچایا۔ شراب کی خالی بوتلیں اپنی کار میں لے کر رکھ لیں۔ ایک دو بار آوارہ گرد لڑکیوں کو بھی چند سکے دے کر اُس کے سامنے اپنی کار میں بٹھایا۔ اور اس کے سامنے عام سے مشروبات شراب بنا کر پینے لگا، یعنی نشہ میں ہونے کا ناٹک کرتا۔ وہ بیچاری کہتی رہ جاتی شراب بری چیز ہے، یہ تمھیں مار ڈالے گی، میں اس کی بات سننے کی بجائے الٹا سختی سے پیش آتا۔ وہ بیچاری روتی رہ جاتی، میں بے رحمی کا مظاہرہ کرتا جب کہ میرا ضمیر مجھ پر لعنت بھیج رہا ہوتا۔ ایک دن میں واپس آتے ہوئے ڈرامائی انداز سے کار روک کر بے ہوش ہو گیا۔ اُس نے میرا سر اپنی گود میں پیار سے رکھ لیا اور میرے بال سہلانے لگ گئی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر میرے رخسار پر گر رہے تھے اور وہ آہستگی سے کہہ رہی تھی، ایک دن تم اس سب سے تنگ آ کر میرے پاس آؤ گے، تب تمھیں میری اہمیت کا احساس ہو گا۔ میں نے اس کے اخلاص کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور آئندہ اسے پریشان نہ کرنے کی ٹھان لی۔
ایک دن جب اقصیٰ کالج گئی ہوئی تھی، خالہ اور خالو قریبا دو گھنٹے تک مجھے مسلسل یہ بتاتے رہے کہ اقصیٰ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہے۔ میں اقصیٰ سے پیار کرتا تھا، مگر میرا دل اُس سے شادی کرنے کے لیے راضی نہیں تھا، مجھے اس سے ہمدردی تھی، وہ میرا اتنا خیال رکھتی تھی کہ میں اس کی احتیاط سے تنگ آ جاتا تھا، پچھلے اڑھائی سال سے مسلسل اُس نے مجھے اپنی پلکوں پر بٹھا کے رکھا تھا۔ کیا میں اُس کی خوشی کے لیے اپنے دل پر جبر نہیں کر سکتا۔ “ضرور کر سکتا ہوں، میں دل کا مالک ہوں، دل میرا مالک نہیں ہے۔ اور اپنی محسنہ کی خوشی کے لیے۔۔۔” میں نے حتمی فیصلہ سنانے کے لیے ان سے ایک ماہ کا وقت لیا۔ وہ راضی ہو گئے۔ میں نے بہت سوچا، بہت دماغ لڑایا مگر کوئی حل تلاش نہیں کر سکا۔ بہ فرضِ محال کہ شاید اقصیٰ خود ہی انکار کر دے، ایک دن میں اسے پھر اسی جھیل کے کنارے پر لے گیا۔ ہم دونوں ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے حوصلہ جمع کیا اور اُس سے پوچھا:
“اقصیٰ! تم ہمارے رشتے کو کس نظر سے دیکھتی ہو؟”
“مطلب؟”
“ہم دوست ہیں، کزن ہیں، مگر یہ دونوں رشتے دنیا کی نظر میں نوجوان لڑکی کو نوجوان لڑکے کے ساتھ اکیلے گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں دیتے۔”
“ہاں، میں سمجھتی ہوں۔”
“میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تمھارے دامن پر کوئی داغ لگے، یا تمھارا اور تمھارے والدین کا سر نیچا ہو۔”
“میں سن رہی ہوں۔”
“اقصیٰ، دیکھو، شاید تم سمجھو جو میں کہہ رہا ہوں۔ اب ہمیں یا تو اس رشتے کو ختم کر دینا چاہیے یا پھر اسے ایک نیا نام دینا چاہیے۔”
“وہ کیسے؟”
میں چاہتا تھا کہ شادی کرنے کی تجویز وہ پیش کرے، مگر وہ کمال سنجیدگی سے مجھے اپنے سوالات میں الجھا رہی تھی۔
“کیا کوئی ایسا رشتہ ہے کہ جو ہمارے بیچ میں ہو اور ہمارے اکٹھا رہنے پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے؟”
“مثلاً؟”
“(میں شادی کا کہنے ہی والا تھا مگر) مثلاً بھائی۔۔۔۔ یا کچھ اور۔۔۔”
“خیر، میں نہیں جانتی۔ شاید امی ابو کوئی حل نکال پائیں۔”
سورج غروب ہو چکا تھا، ہم واپس آ گئے۔
میں نے واپس آ کر خالہ اور خالو کو یہ سب بتایا۔ خالہ جان نے کہا کہ “ہم خوش قسمت والدین ہیں کہ ہماری بیٹی نے ذمہ داری ہم پر ڈال دی ہے، کیوں کہ ہم اس کی خوشیوں کا راز جانتے ہیں۔”
خالو جان اپنے سر سے کپڑا اتارتے ہوئے بولے:
“حامد بیٹا! کیا تم ہمارے بیٹے بنو گے؟”
میں نے اپنی طرف سے ہاں کہہ کر حتمی فیصلہ اقصیٰ پر چھوڑ دیا۔
اقصیٰ سے جب اُس کے والدین نے پوچھا تو اس نے کہا:
“آپ کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔ میری خوشیاں آپ کی خوشیوں میں پنہاں ہیں۔”
خیر، میں اپنی محسنہ کے احسانات کا قرض اتارنے والا تھا۔
خالو جان خصوصاً اتنے خوش تھے کہ انھوں نے ہمیں صبح ہوتے ہی حیدر آباد چلنے کا کہا تا کہ میرے والدین کی رضامندی بھی حاصل کی جا سکے۔
ہم سہ پہر کے وقت حیدر آباد پہنچے۔ سارا خاندان اکٹھا بہت خوش نظر آ رہا تھا، دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ رات کے کھانے کے بعد میرے خالو نے مدّعے کی بات کی۔
“دیکھو بھائی! ہمارا پیڑھیوں کا بندھن ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ اب یہ بندھن ہم اپنی اگلی نسل میں بھی منتقل کر دیں۔”
“حبیب بھائی، آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟” میرے والد صاحب بولے۔
“بات مختصر کروں تو ہم چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا لیں۔”
میرے والد صاحب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے،
“مگر، اک بار میرے بیٹے سے پوچھ تو لیں کہ وہ کیا کہتا ہے۔”
امی جان بھی بے حد خوش نظر آ رہی تھیں۔ فوراً بولیں:
“میرے بیٹے کی تو پہلے ہی ہاں ہے۔۔۔”
میں حیران تھا کہ امی کو کیسے پتہ؟ پھر سوچا ماں ہے، دلوں کے راز بھی سمجھ سکتی ہے۔ سارا خاندان بے حد خوش تھا۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی، سب کا مٹھائی سے منھ میٹھا کرایا گیا، میں اور اقصی دوسرے کمرے میں تھے اور اتنے خوش کہ ہماری ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ خالہ جان نے کہا کہ منگنی کی رسم ابھی ادا ہو جائے، جلد ہی شادی کی تاریخ بھی طے کر لیں گے۔ ہم دونوں گلے ملتے، قہقہے لگاتے ان کے کمرے میں چلے گئے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اقصیٰ کے ساتھ میری کرسی پر بھائی حماد آ کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر تو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا۔ امی جان بولیں، “رسم ادا کرنے میں دیر کیسی؟”
“حامد آئے گا تو رسم ادا ہو گی۔” خالہ بولیں۔
“حامد تو یہیں کھڑا ہے، آئے گا سے مطلب؟”
“بھئی حماد اٹھے گا تو حامد آ کر بیٹھے گا نا!”
“منگنی حماد کی ہے، تو کرسی پر حامد کیوں بیٹھے گا؟”
“لیکن، بہن ہم تو حامد سے اپنی بیٹی کی منگنی کرنا چاہتے ہیں۔”
کمرے میں ہل چل سی مچ گئی، کون کیا کہہ رہا تھا، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ جب سمجھ آئی تو پتہ چلا کہ والد صاحب قبلہ ہمیشہ کی طرح میرے حق میں تھے اور امی جان حماد کے حق میں۔
مگر حماد اپنے بھائی کے ساتھ ایسا گھناؤنا مذاق کیوں کرے گا؟
یہ سوال میرے ذہن میں اٹھ رہا تھا، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو حماد بھائی کہنے لگے:
“کچھ مہینے پہلے، جب اقصیٰ کی طبیعت خراب تھی اور ہم اس کی عیادت کے لیے گئے تھے، تب ہی میں نے اسے پسند کر لیا تھا، اور امی جان کو بتایا بھی تھا۔ امی جان نے خود کہا تھا کہ وہ اقصیٰ کی پڑھائی مکمل ہوتے ہی حبیب خالو سے میرے لیے اس کا ہاتھ مانگیں گی۔”
یہ اک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی۔ اقصیٰ سے پوچھا گیا تو اس نے فیصلہ اپنے والدین کی بجائے مجھ پر چھوڑ دیا۔ المختصر، وہ کوئٹہ رخصت ہو گئے، مجھے اکیلے میں یہ کہہ کر کہ “فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام مت لینا۔ جو بھی فیصلہ کرنا، سوچ سمجھ کر کرنا۔”
میں حماد پر مداخلت کا الزام نہیں لگا رہا تھا کیوں کہ وہ سچ مچ مداخلت کر رہا تھا۔ ابا جان میرے ساتھ تھے، انھوں نے دھمکی دی کہ اگر حماد باز نہیں آیا تو میں اسے عاق کر دوں گا۔ میرا ماننا تھا کہ وقت گزرے گا تو خود بخود کوئی حل نکل آئے گا، میری والدہ خدا جانے کیوں میری مخالفت کرنے پر بضد تھیں، اقصیٰ بھی اپنے فیصلے میں اٹل تھی۔ مجھے معاملات کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار تھا، میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں واپس چلا گیا۔
مجھے پورا یقین تھا کہ وقت کا فیصلہ میرے حق میں ہو گا۔ تین ہفتے اسی کشمکش میں گزر گئے۔ ایک دن اقصیٰ نے مجھے فون کر کے بلایا۔ میں دوڑا چلا آیا۔ اُس دن وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ بڑے دنوں کے بعد میں اسے خوش دیکھ رہا تھا۔ خالہ جان کے سامنے اس نے کہا:
“میں نے فیصلہ کر لیا ہے امی!”
“کیسا فیصلہ بیٹی؟”
“شادی کا۔”
“کس سے؟”
“جس سے حامد چاہے۔” اس کے الفاظ سے زندہ دلی چھلک رہی تھی، اُس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی مسکراہٹ تھی، میں حیران تھا۔
“تم یہی چاہتے تھے نا کہ میں تم کو بھول جاؤں؟”
“نہیں اقصیٰ، نہیں”
“میں نے تمھیں بہت پریشان کیا ہے نا؟”
“نہیں اقصیٰ، وہ تو میں نے مذاق کیا تھا۔”
“میں پاگل ہوں نا؟”
سنجیدہ ہو گئی ۔۔۔
آخر اُس نے کہا:
“میں کوئٹہ سے دلہن بن کر رخصت نہیں ہوں گی۔ اگر تم مجھے خود آ کر یہاں سے رخصت کر دو تو مجھے اپنی قسمت سے کوئی شکوہ نہیں رہے گا۔”
یہ کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ کیا کیا جائے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
میں خالو جان کے دفتر گیا، ان سے بات چیت ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ شاید اقصیٰ مسلسل کوئٹہ میں رہ کر یہاں کی آب و ہوا سے اکتا گئی ہے، اس لیے بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔ میں اسے کچھ دنوں کے لیے سندھ لے جاتا ہوں، سمندر کے ساحل پر۔ گھومے پھرے کی ٹھیک ہو جائے گی، ایک مہینہ اور تمھارے والدین کا انتظار کر لیتے ہیں، اگر وہ نہ مانے تو تمھارے والد تو راضی ہیں ہی، ہم نکاح کی رسم ادا کر دیں گے۔ مجھے اپنی ماں پر غصہ آ رہا تھا، بچپن سے لے کر آج تک اس نے میری ایک بھی بات نہیں مانی تھی، مجھے نہیں یاد اُس نے مجھے کب دودھ پلایا تھا، مگر میرے ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک میں نے اپنے آپ کو اس سے خوش ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں نے اپنی والدہ اور حماد دونوں سے قطع تعلق کی ٹھان لی۔ اگلے دن والد صاحب کو فون کر کے اگلے مہینے شادی کے بارے میں بتایا، بہت خوش ہوئے۔ ثانیہ باجی بھی بہت خوش تھیں، انھوں نے بھی آنے کی ہامی بھری۔ خالہ اور خالو نے کراچی جانے کی تیاریاں مکمل کر لیں۔ میں کار کے پاس کھڑا تھا۔ بہت خوش نظر آ رہی تھی، کار میں بیٹھنے سے پہلے مجھ سے کہنے لگی:
بھائی بنو گے میرے؟”
میں نے کہا “اونہہ ہونہہ، بالکل نہیں۔”
“تم نہیں سدھرو گے۔”
یہ کہہ کر اُس نے میرے رخسار کو چوما اور مجھے اپنا رخسار چومنے کا کہا، میں نے انکار کیا تو اُس نے مجھے رخسار کا بوسہ لینے پر مجبور کیا اور آہستہ سے بولی:
“تمھارے ساتھ ایسا رشتہ قائم کرنے جا رہی ہوں، کہ میں ہمیشہ تمھارے ساتھ رہوں گی، اور کوئی بھی اعتراض نہیں کرے گا۔”
وہ آج حد سے زیادہ خوش نظر آ رہی تھی، جیسے دو سال پہلے مجھے دیکھ کر ہوتی تھی۔ کار چلنے لگی تو وہ مجھے ہاتھ لہرا لہرا کر الوداع کہہ رہی تھی۔ میں بہت خوش تھا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں کافی دیر تک گھر کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھا ماضی کی یادوں میں ڈوبا رہا، ساتھ ہی ساتھ ہنی مون کے لیے شہروں کا انتخاب کرنے لگا۔ پھر اچانک میں اقصیٰ کے کمرے میں گیا، سب کچھ نئے سرے سے ترتیب دیا گیا تھا۔ میز پر ہم دونوں کی تصاویر بکھری پڑی تھیں، شاید ملا ملا کر دیکھتی رہی ہو گی کہ ہم دونوں کی جوڑی کیسی لگتی ہے۔ مگر تصاویر کو ترتیب دینے کے لیے اکٹھا کرنے لگا تو ایک خالی شیشی نظر آئی جس سے سایانائیڈ کی مہک آ رہی تھی۔ میں نے ان کو فون کرنے کے لیے موبائل جیب سے نکالا تو پتہ چلا کہ خالو مجھے چودہ مسڈ کالز دے چکے ہیں جن کا مجھے موبائل سائلنٹ پر ہونے کی وجہ سے پتہ نہیں چل سکا تھا۔ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ اس نے خود کشی کرنے کے بارے میں سوچا بھی کیسے؟ شاید اقصیٰ کو یہ احساس ہوا ہو کہ اُس نے مجھے بہت پریشان کیا ہے اور آئندہ وہ مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر اُسے یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ اب تو میں واقعی اُس سے پیار کرنے لگا تھا، اب تو وہ میرے دل و دماغ پر حکومت کر رہی تھی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے، اور دل میں گہرا غم، جسم سے جیسے جان ہی نکل گئی ہو، میں جہاں کھڑا تھا، وہیں بیٹھ گیا، مجھ میں اپنے پاؤں پر چل کر کمرے سے باہر جانے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی۔ کچھ دیر بعد پھر خالو کا فون آیا، انھوں نے کہا “بیٹا! اقصیٰ بہت سیریئز ہے، جلدی سول ہاسپٹل کوئٹہ والے راستے پر آ جاؤ، ہم تمھارے منتظر ہیں۔” مجھے کچھ حوصلہ ہوا، وہ ابھی زندہ تھی اور شاید، میری راہ دیکھ رہی تھی۔ میرے جسم میں ایک انجانی سی توانائی آ گئی، میں نے فوراً کار کو اسپتال والے رستے پر دوڑا دیا۔ گھر سے باہر نکل کر چار منٹ ہی گاڑی چلائی تھی کہ دیکھا اقصیٰ سڑک کنارے اکیلی کھڑی تھی:
“اتنی دیر کرنی تھی آنے میں؟ میں کب سے تمھاری راہ دیکھ رہی ہوں۔”
اسے زندہ سلامت دیکھ کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ میں کار سے باہر نکلا اور اسے پوری طاقت سے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ ہم دونوں بہت خوش تھے۔ پہلے پہل تو وہ مجھے اک خواب کی سی لگ رہی تھی، مگر جب حقیقت کا یقین ہو گیا تو میں نے اس سے پوچھا:
“تمھارے پاپا تو کہہ رہے تھے، کہ تم بہت سیریئز ہو۔”
“سچ ہی تو کہہ رہے تھے! شادی کو لے کر۔”
“وہ خود کہاں گئے ہیں؟”
“تمھارے پاپا اور ثانیہ کو لینے حیدر آباد گئے ہیں۔”
“اتنی جلدی؟ وہ تو اگلے مہینے کا کہہ رہے تھے؟”
میں نے کار میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“وہ کہتے ہیں اچھے کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔”
میں نے کار کی چابی اسے تھما دی۔
“اب میں اِس سفر کو کبھی ختم نہیں ہونے دینا چاہتی۔”
اُس نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا اور ہم چمن کی سیر کو نکل گئے۔
Notice: Undefined variable: aria_req in /home2/monthly1/public_html/wp-content/themes/avc/comments.php on line 73
Notice: Undefined variable: aria_req in /home2/monthly1/public_html/wp-content/themes/avc/comments.php on line 79